Thursday | 28 March 2024 | 17 Ramadhan 1445

Fatwa Answer

Question ID: 73 Category: Social Matters
Food from Neighbor Working at a Gas Station

 

 

Assalamualaikum Warahmatullah

Can I eat food from my neighbor who works at a gas station (given that sometimes at some gas stations they sell alcohol and offer lottery)? Since that is his only job and he is the sole earner, is it ok to go to his house and eat or accept the food they send?

JazakAllah Khair

 

Walaikumassalam Warahmatullah

الجواب وباللہ التوفیق

If the major portion of someone’s earnings are composed of halal sources of income, which means their main job includes buying and selling of halal articles or objects then from a Shar‘ai standpoint, consuming the food which came from such a person’s home will be considered permissible. If however, their whole or majority of income is haram i.e. sourced by selling or serving alcohol to others, then accepting any gifts or eating food coming from them will be considered impermissible. In this condition however, if they specify that the food or gift they have brought is from another halal source of income e.g. money earned through inheritance or loan from someone else etc., then accepting the gift or eating their food will be considered correct.

عن أنس بن مالک قال : ’’ لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في الخمرِ عشرۃً : عاصِرَہَا، ومُعْتَصِرَہَا ، وشَارِبَہَا ، وحَامِلَہَا ، والمَحْمُوْلَۃُ إلیْہِ ، وسَاقِیَہَا ، وبَائِعَہَا ، وآکِلَ ثَمَنِہَا ، والمُشْترِيْ لَہَا ، والمُشَتَرَاۃُ لَہ‘‘ ۔ (سنن ترمذی:۲/۳۱۰ ، کتاب البیوع )

ما في ’’ المحیط البرہاني ‘‘ : والاستئجار علی فعل مباح جائز ۔ (۹/۱۹۰، کتاب الإجارات)

ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : أما أن یکون الأجیر مسلماً والمستأجر ذمیاً ، فقد أجازہ جمہور الفقہاء ، غیر أنہم وضعوا معیاراً خاصاً ، ہو أن یکون العمل الذي یؤجر نفسہ للقیام بہ مما یجوز لہ أن یفعلہ لنفسہ ، کالخیاط والبناء والحرث ، أما إذا کان لا یجوز لہ أن یعملہ لنفسہ کعصر الخمر ۔۔۔۔۔۔ فإنہ لا یجوز ۔ (۱/۲۸۸)

غالب مال المہدي إن کان حلالاً، لا بأس بقبول ہدیتہ وأکل مالہ، ما لم یتعین أنہ من حرام، وإن غالب مالہ الحرام لا یقبلہا ولا یأکل، إلا إذا قال: إنہ حلال ورثہ أو استقرضہ۔

(البزازیۃ علی ہامش الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ : ۶؍۳۶۰ زکریا۔الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الثاني عشر في الہدایا والضیافات ۵؍۳۴۳ زکریا)

فقط واللہ اعلم بالصواب

Question ID: 73 Category: Social Matters
گیس اسٹیشن پر کام کرنے والے پڑوسی کے گھر کا کھانا

السلام علیکم ورحمۃ اللہ

کیا میں اپنے پڑوسی جو کہ ایک گیس اسٹیشن پر کام کرتا ہے ، کے گھر سے آیا ہوا کھانا کھا سکتا ہوں(کیونکہ کچھ گیس اسٹیشنوں پر شراب بیچی جاتی ہے اور لاٹری کا کھیل بھی ہوتا ہے)؟ چونکہ ان صاحب کی صرف ایک ہی جاب ہے اور وہ گھر کے واحد کمانے والے ہیں، کیا ان کے گھر پر دعوت میں جانا یا ان کے گھر سے آئے ہوئے کھانے کو کھانا جائز ہوگا؟

جزاک اللہ خیرا

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

الجواب وباللہ التوفیق

اگر کسی شخص کی اکثر آمدنی حلال کمائی ہی کی ہو یعنی ان کی اصل ملازمت حلال چیزوں کی خریدوفروخت کی ہی ہو توشرعاان کے یہاں سے آیا ہوا کھانا کھانا جائز ہے،اور اگر کل یا اکثر آمدنی حرام کی ہو اور اصل ان کا کام شراب ہی بیچنا یا لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہو تو پھر ان کی جانب سے آئے ہوئے ہدیہ اور طعام کا کھانا جائز نہیں ہے۔الا یہ کہ وہ اِس صورت میں صراحت کردیں کہ یہ حلال مال مثلا میراث کے مال،یا قرض وغیرہ سے یہ دعوت ہے تو پھر اس ہدیہ وغیرہ کو قبول کرنا درست ہے۔

عن أنس بن مالک قال : ’’ لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في الخمرِ عشرۃً : عاصِرَہَا، ومُعْتَصِرَہَا ، وشَارِبَہَا ، وحَامِلَہَا ، والمَحْمُوْلَۃُ إلیْہِ ، وسَاقِیَہَا ، وبَائِعَہَا ، وآکِلَ ثَمَنِہَا ، والمُشْترِيْ لَہَا ، والمُشَتَرَاۃُ لَہ‘‘ ۔ (سنن ترمذی:۲/۳۱۰ ، کتاب البیوع )

ما في ’’ المحیط البرہاني ‘‘ : والاستئجار علی فعل مباح جائز ۔ (۹/۱۹۰، کتاب الإجارات)

ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : أما أن یکون الأجیر مسلماً والمستأجر ذمیاً ، فقد أجازہ جمہور الفقہاء ، غیر أنہم وضعوا معیاراً خاصاً ، ہو أن یکون العمل الذي یؤجر نفسہ للقیام بہ مما یجوز لہ أن یفعلہ لنفسہ ، کالخیاط والبناء والحرث ، أما إذا کان لا یجوز لہ أن یعملہ لنفسہ کعصر الخمر ۔۔۔۔۔۔ فإنہ لا یجوز ۔ (۱/۲۸۸)

غالب مال المہدي إن کان حلالاً، لا بأس بقبول ہدیتہ وأکل مالہ، ما لم یتعین أنہ من حرام، وإن غالب مالہ الحرام لا یقبلہا ولا یأکل، إلا إذا قال: إنہ حلال ورثہ أو استقرضہ۔

(البزازیۃ علی ہامش الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ : ۶؍۳۶۰ زکریا۔الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الثاني عشر في الہدایا والضیافات ۵؍۳۴۳ زکریا)

فقط واللہ اعلم بالصواب