Friday | 19 April 2024 | 10 Shawaal 1445

Fatwa Answer

Question ID: 118 Category: Beliefs
Using "Miya" with Allah (Follow-up)

Assalamualaikum Warahmatullah 

This question is in response to the question number 45 where I was asked to provide more details of why using the word “Miya” with Allah Subhanahu Wa Ta‘ala is against verse 80 of surah al- A'araf. The verse is translated (more or less to):

To Allah Subhanahu Wa Ta‘ala belongs the best names, so invoke Him by them.

The issue is that the word "Miya" could be used in many different contexts. It could be used to refer to a husband or any other male individual. It may also be used to give respect to a man. In this context, I think that associating this word with Him is ascribing defect to His name as it is not befitting of His majesty.

Your clarification in this matter will be greatly appreciated.

JazakAllahu Khaira

الجواب وباللہ التوفیق

Walaikumassalam Warahmatullah

It is true that the word “miya” has many meanings including master, head, owner, huzoor, overseer, husband, prince, teacher, respected, friend etc. (Ferozul-Lughat 667), but from these many possible meanings, the usage of the word in its context defines its exact meanings. When this word is used with Allah Subhanahu Wa Ta‘ala, it means master, head and owner in that context and this word is used to give respect to the majesty of Allah Subhanahu Wa Ta‘ala and is not used with any other meanings. Therefore, there is no harm in using this word with Allah Subhanahu Wa Ta‘ala and there is no aspect of disrespect associated with it in this case.

If the rationale behind your question is that the only names used in the Quran can be used for Allah Subhanahu Wa Ta‘ala and no other names can be considered then it should be noted that Torah, Bible, Zabur and other pages revealed to the ambiya were in languages other than Arabic and other words were used for Allah Subhanahu Wa Ta‘ala. Would this reasoning not render those names as incorrect? In addition, Imam Bukhari Rahmatullah Aleh has mentioned a name of Allah Subhanahu Wa Ta‘ala with reference from Hazrat Akrama which has not been mentioned in the Quran. Will that name also be considered incorrect?

وَقَالَ عِكْرِمَةُ جَبْرَ وَمِيكَ وَسَرَافِ عَبْدٌ إِيلْ اللَّهُ(کتاب التفسیر:سورۃ البقرۃ: بَاب {مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ)

Therefore, only insisting upon such names which have been mentioned in the Quran is incorrect. Names in other languages which have been specifically used for Allah Subhanahu Wa Ta‘ala, using them is appropriate and all such names are considered respectful with the consensus of the ummah. However, using such names for Allah Subhanahu Wa Ta‘ala, which have been used by the followers of other religions for their false gods, is considered impermissible.

If the intent of your question is that the words which are used for the creation, how can they be used for Allah Subhanahu Wa Ta‘ala, then the following explanation shall clarify this suspicion. Changing the surroundings and context of usage of a word changes its meanings and implications and this is proven by Quran. And by such usage, there is no fault attributed towards the majesty of Allah Subhanahu Wa Ta‘ala.

For example, in the verse below:

إن اللہ وملائکتہ یصلون علی النبي

The association of Allah Subhanahu Wa Ta‘ala towards the word Salat will have a different meaning as compared to its association with the word Malaikah. Similarly, a lot of people have names such as Raheem, which has been mentioned in the Quran as well, and these people are called by these names. However, this and many other such terms and names have been used by Allah Subhanahu Wa Ta‘ala for the creation as well. It became evident that the terms which are used for the creation in addition to its usage with Allah Subhanahu Wa Ta‘ala, using such terms for the Creator has no harm and certainly do not attribute any fault to His majesty. In conclusion, it is no double preferred and recommended to use the names and qualities of Allah Subhanahu Wa Ta‘ala which have been mentioned in the nusoos.

من الأسماء التوقیفیۃ عَلَم، ومنہا ألقاب وأوصاف وترجمۃ اللفظ بمنزلتہ، فالأسماء العجمیۃ ترجمۃ تلک الألقاب والأوصاف، ولذا انعقد الإجماع علی إطلاقہا، نعم لا یجوز ترجمۃ العَلَم، فاللّٰہ علم والباقي ألقاب وأوصاف بخلاف المرادف العربي للأسماء العربیۃ؛ لأنہا لا ضرورۃ إلی إطلاقہا فلا یؤذن فیہا، أما العجم فیحتاجون إلی الترجمۃ للسہولۃ في الفہم۔ (الیواقیت والجواہر لعبد الوہاب الشعراني ص: ۷۸ مصر، وکذا في إمداد الفتاویٰ / مسائل شتی ۴؍۵۱۳ دار العلوم کراچی)

As far as the reference to and the translation of the verse 80 of Surah al-A‘araf is concerned, the description in your question is incorrect. Here is the correct verse along with the correct translation:

وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِينَ(الاعراف:۸۰)

And (We sent) Lut (Lot) when he said to his people, “Do you commit the shameful act in which nobody in the world has ever preceded you?

واللہ اعلم بالصواب

Question ID: 118 Category: Beliefs
اللہ کے ساتھ لفظ میاں کا استعمال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرا یہ سوال ، سوال نمبر ۴۵ سے متعلق ہے جس میں آپ نے مجھے سے اللہ تعالی کے ساتھ لفظ میاں استعمال کرنے کے بارے میں مزید تفصیلات مانگی تھیں اور یہ پوچھا تھا کہ یہ عمل سورہ اعراف کی آیت نمبر ۸۰ کے خلاف کیوں ہے۔ مندرجہ ذیل میں اس آیت کا کم و بیش ترجمہ ذکر ہے:

اور بہترین نام اللہ تعالی کے لئے ہیں، اس کو ان ناموں سے پکارو۔

مسئلہ یہ ہے کہ لفظ "میاں" کو کئی مختلف طریقوں سے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ اس لفظ سے عورتیں اپنے شوہروں کو پکارتی ہیں، یا پھر عام مردوں کے ساتھ بھی اس لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے، اور کہیں کہیں   مردوں کو عزت دینے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جب لفظ میاں کو اس انداز سے استعمال کیا جاتا ہے تو میری نظر میں یہ ایسا ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ ایک لفظ ناقص لگایا جا رہا ہو جو اس کی عظمت کے برعکس ہے۔

آپ کی راہنمائی اس سلسلے میں بہت کارآمد ہوگی۔

جزاک اللہ خیرا

 

 

الجواب وباللہ التوفیق

یہ بات صحیح ہے کہ لفظ میاں کے بہت معانی ہیں،مثلا آقا، سردار، مالک، حضور، سرکار، خاوند، شہزادہ، اُستاذ، جناب، دوست وغیرہ۔ (فیروز اللغات :۶۶۷)لیکن اِن مشترکہ معنوں میں سے جہاں جو قرینہ ہوتا ہے وہاں وہی معنی مراد ہوتے ہیں، جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کہا جائے تو اس وقت اس کے معنیٰ سردار، آقا اور مالک کے ہوتے ہیں؛اور اس وقت یہ لفظ بطور تعظیم ہی استعمال ہوتا ہے،اور کسی دوسرے معنیٰ میں استعمال   نہیں ہوتا اس لئے اللہ کے لئےاس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے،اورنہ اس میں بے ادبی کا پہلو ہے۔

 

اگر آپ کا منشا یہ ہوکہ جو نام قرآن میں ہیں انہیں کو ماننا چاہیے ان کے علاوہ ناموں کا کوئی اعتبار نہیں ہےتو یہ بات ذہن میں رہنا ضروری ہےکہ تورات ،زبور،انجیل اور انبیاء کے صحائف عربی کے علاوہ دوسری زبانوں میں تھے اور ان میں اللہ کے لئے دوسرے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں،تو کیا وہ نام غلط ہیں؟ اور امام بخاریؒ نے صحیح بخاری میں حضرت عکرمہ کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ کے لئے دوسرا نام بیان فرمایا ہے،جو قرآن میں نہیں ہے۔تو کیااس کو غلط قرار دیاجائے گا؟

وَقَالَ عِكْرِمَةُ جَبْرَ وَمِيكَ وَسَرَافِ عَبْدٌ إِيلْ اللَّهُ(کتاب التفسیر:سورۃ البقرۃ: بَاب {مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ)

اس لئے قرآن میں مذکور اسمائے الٰہی پر مصر ہونا درست نہیں ہے،دوسری زبانوں میں جو اسماء خاص طور پراللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتے ہیں ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے،اوروہ باجماع امت قابل احترام وتعظیم ہیں۔ہاں غیر اقوام کے وہ الفاظ جو ان کا شعار ہوچکے ہوں اور وہ اپنے معبودان باطلہ پر کے لئے استعمال کرتے ہوں تو ان کا استعمال اللہ کے لئے جائز نہیں ہے۔

اگر آپ کے سوال کا منشا یہ ہوکہ جو لفظ ہم مخلوق کے لئے استعمال کرتے ہوتو وہ اللہ کے لئے کیسے استعمال کریں تو اس شبہ کو بھی دور کئے دیتے ہیں کہ متعلقات میں تبدیلی سے اس کے معنیٰ اور مفہوم میں بھی تبدیلی اور اس کا استعمال قرآن سے ثابت ہے۔اوراس طرح استعمال کرنے سےباری تعالیٰ کی شان میں بے ادبی کا پہلو بھی نہیں پایاجاتا۔

جیسےإن اللہ وملائکتہ یصلون علی النبي، یہاں اللہ کی طرف صلاة کی نسبت کرنے میں معنی اور ہوں گے اور ملائکہ کی طرف نسبت کرنے میں معنی اور ہوں گے۔ایسے ہی بہت سے لوگوں کے نام رحیم وغیرہ رکھےجاتے ہیں، جو خود قرآن میں مذکور ہیں،اور انہی ناموں سے انہیں پکارا جاتا ہے، لیکن یہ اور اس کے علاوہ دیگر الفاظ اور اسماء اللہ پاک نے مخلوق کے لئے بھی استعمال فرمائےہیں،معلوم ہوا کہ جو الفاظ باری تعالیٰ کے ساتھ ساتھ مخلوق کے لئے استعمال ہوتے ہیں تو اس کے اللہ کے لئے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔اور نہ وہ باری تعالیٰ کی شان کے منافی ہے۔ ہاں بہتر اور افضل یہ ہےکہ نصوص میں جو اسماء واوصاف اللہ تعالی کے لئے استعمال کئے گئے ہیں انہیں کو استعمال کیا جائے۔

من الأسماء التوقیفیۃ عَلَم، ومنہا ألقاب وأوصاف وترجمۃ اللفظ بمنزلتہ، فالأسماء العجمیۃ ترجمۃ تلک الألقاب والأوصاف، ولذا انعقد الإجماع علی إطلاقہا، نعم لا یجوز ترجمۃ العَلَم، فاللّٰہ علم والباقي ألقاب وأوصاف بخلاف المرادف العربي للأسماء العربیۃ؛ لأنہا لا ضرورۃ إلی إطلاقہا فلا یؤذن فیہا، أما العجم فیحتاجون إلی الترجمۃ للسہولۃ في الفہم۔ (الیواقیت والجواہر لعبد الوہاب الشعراني ص: ۷۸ مصر، وکذا في إمداد الفتاویٰ / مسائل شتی ۴؍۵۱۳ دار العلوم کراچی)

رہی بات سورۂ اعراف کے حوالہ کی وہ غلط ہے،سورۂ اعراف کی آیت نمبر ۸۰   اور اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِينَ(الاعراف:۸۰)

اور (ہم نے) لوط (علیہ السلام) کو (بھیجا) جبکہ انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا کہ تم ایسا فحش کام کرتے ہو جس کو تم سے پہلے کسی نے دنیا جہان والوں میں سے نہیں کیا۔

واللہ اعلم بالصواب