Friday | 29 March 2024 | 18 Ramadhan 1445

Fatwa Answer

Question ID: 1735 Category: Marriage and Divorce
مکرہ کی تحریر ی طلاق پر زبردستی بغیر نیت وارادے کے دستخط کر وانے کا حکم

محمد تنو یر شہزاد 

18 دسمبر 2022 

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

18 دسمبر 2022

محمد تنو یر شہزاد 

03336780976

اوکاڑہ 

raomts1313@gmail.com

عنوان:

مکرہ کی تحریر ی طلاق بغیر نیت وارادے زبردستی دستخط کر وانے کا حکم 

 

اک مسئلہ کے سلسلے میں جناب مفتی صاحب سے شرعی حکم درکار ہے

 

کیا فرماتے ہیں مفتی صاحب کہ ایک شخص کو

1 جان سے مارنے کی دھمکی دے کر

2 بازو یا ٹانگ پر گولی مار کر معذور کر 

دینے کی دھمکی

3 اغوا کا جھوٹا مقدمہ کر کے جیل کی دھمکی

4 اینٹی کرپشن میں جعلی مقدمہ کر کے سرکاری نوکری ختم کر وانے کی دھمکی

دے کر

5 مار پیٹ کر کے

6 جھوٹا مقدمہ کر کے اسے اور اس کے

بھائی کو جیل بھیجنے کی دھمکی دے کر

 

سوال:

زبردستی تحریر ی طلاق پر بغیر نیت وارادے کے دستخط کر وانے سے کیا طلاق واقع ہو جاتی ہے یا نہیں؟ 

 

1 خود کو بچانے کے لیے دستخط کئے 

2 نہ تو طلاق دینے کا ارادہ تھا اور نہ ہی نیت

3 زبان سے طلاق کے الفاظ ادا نہیں کیے اور نہ ہی زبان سے طلاق دی 

 

جبکہ بندہ کو یقین ہو گیا تھا کہ اگر وہ دستخط نہیں کرے گا تو وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ نہ صرف یہ سب کرنے پر قادر ہیں بلک وہ ایسا ضرور کریں گے 

جبکہ وہ صرف زبانی دھمکیاں نہیں دے رہے تھے بلکہ وہ نا صرف یہ سب کچھ کرنے پر قادر ہیں بلکہ وہ سچ میں ایسا کر گزرتے

جبکہ وہ شخص سرکاری نوکری کی وجہ سے نا تو کہیں چھپ سکتا تھا اور نا کہیں جا سکتا تھا اور اس کو مکمل یقین بھی تھا کہ وہ جو کہہ رہے ہیں وہ ایسا ضرور کریں گے کیونکہ انہوں نے جہاں وہ نوکری کرتا تھا ادھر جا کر سب کے سامنے مارا اور اگر وہ کہیں چلا جاتا تو اس کی سرکاری نوکری ختم ہو جاتی مطلب نوکری ختم ہونے کے ڈر سے وہ کہیں جا بھی نہیں سکتا تھا

اس نے صرف خود کو بچانے کے لیے تحریر ی طلاق پر دستخط کیے جبکہ زبان سے طلاق کے الفاظ نہیں بولے مطلب زبانی طور پر طلاق نہیں دی اور نا ہی طلاق کا کاغذ تیار کر وایا

طلاق کا کاغذ بھی لڑکی والوں نے خود لکھوایا اور بندہ نے صرف دستخط کئے اور کاغذ پر "طلاق طلاق طلاق (ثلاثہ)" لکھا تھا

 

سوال :

کیا خود کو بچانے کے لیے بغیر نیت وارادے کے دستخط کر نے سے طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ 

کیا وہ اب بھی بیوی ہے؟ 

کیا وہ اب بھی میاں بیوی کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں؟ 

مہربانی فرما کر جلد سے جلد شرعی حیثیت سے حکم سے آگاہ کیا جائے قرآن و حدیث اور علمائے دین اور مفتیان اکرام کے حوالاجات کے ساتھ تحریر ی شکل میں با ضابطہ مہر شدہ فتویٰ جاری کیا جائے 

جزاک اللہ خیرا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب وباللہ التوفیق

صورتِ مسؤلہ اکراہ والی ہے، ایسی صورت میں شوہر پر حالتِ اکراہ کے احکامات جاری ہوں گے  اور فقہاء کرام نے وضاحت کی ہے کہ حالت اکراہ میں تحریری طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے   لہذا اگر شوہر نے جبرواکراہ کی وجہ سے طلاق کے الفاظ لکھ کردیئے ہیں یا طلاق نامہ پر دستخط کئے ہیں تو طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔ آپ کی بیوی بدستور آپ کی بیوی ہے اور آپ دونوں میاں بیوی کی حیثیت سے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں-

رجل اکرہ بالضرب والجسس علی ان یکتب امراتہ فلانۃ بنت فلاں بن فلان فکتب امراتہ فلانۃ بنت فلاں بن فلاں طالق  لا تطلق امراتہ لان الکتابۃاؐ قیمت مقام العبارۃ باعتبار الحاجۃ ولاحاجۃ ھھنا (فتاویٰ قاضی خان:۱؍۴۷۱)

فقط واللہ اعلم بالصواب