Friday | 19 April 2024 | 10 Shawaal 1445

Fatwa Answer

Question ID: 270 Category: Social Matters
Inheritance Distribution

Assalaamualaikum,

My grandfather (my father's father) died in 1995. My father passed away in 1998. On May 10, 2018, I went to Pakistan to sell a plot my father had bought in 1995. After all of the expenses were paid, the total amount for distribution is $57,000.00

The remaining family is as follows:

His Widow (my mother)

His Mother (my grandmother)

Including me 3 SONS  

No Daughters 

Please guide me as to how I am to distribute my father's funds as well as how much each individual receives  

Inshaa Allaah I will be waiting for your reply anxiously.

 

 

 

 

الجواب وباللہ التوفیق

On the condition that the details provided in your question are true, as per the situation described in your question, after حقوق متقدمہ علی الارث (if the deceased had left the will to use the money for the grave, shroud, burial, and paying off the debt then fulfilling it from one third of the wealth) the total property of the deceased will be divided into 72 portions, from which his wife will get 9 portions, mother 12, and each of the three sons 17, 17 portions. As far as the grandfather is concerned, if his inheritance is to be distributed then please ask the issue by providing the details of the heirs present at the time of his demise.

کما قال اللہ تعالیٰ فی القرآن المجید: يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ  الی قولہ  فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ(النساء:۱۱و۱۲)

وکما فی السراجی اما لزوجات فحالتان… والثمن  مع الولد او ولد الابن وان سفل۔(السراجی فی المیراث:۱۸ و۱۹)

واللہ اعلم بالصواب

 

Question ID: 270 Category: Social Matters
وراثت کی تقسیم

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میرے والد کا انتقال ۱۹۹۸ میں ہوا، ۱۰ مئی ۲۰۱۸ کو میں پاکستان گیا اس پلاٹ کو بیچنے کے لئے جو انھوں نے ۱۹۹۵ میں خریدا تھا۔ تمام اخراجات ادا کرنے کے بعد جو کل رقم ہاتھ میں آئی وہ ۵۷،۰۰۰ ڈالر تھی۔ میرے داد ا کا انتقال میرے والد سے قبل ۱۹۹۵ میں ہوا۔ اب وارثین یا لواحقین میں سے مندرجہ ذیل لوگ حیات ہیں:۔میری والدہ۔میری  دادی۔مجھے ملا کر ۳ بیٹے۔کوئی بیٹی نہیں۔

براہ کرم اس سلسلے میں راہنمائی فرمائیے کہ اس رقم کو کس طرح سے تقسیم کیا جائے گا، اور ہر رشتے دار کو کتنی رقم ملے گی؟ آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔

الجواب وباللہ التوفیق

بشرطِ صحتِ سوال صورتِ مسؤلہ میں حقوق متقدمہ علی الارث (تجہیز وتکفین،قرض اور وصیت کی ہوتو تہائی مال سےوصیت کےنفاذ  )  کے بعد مرحوم کی کل جائیداد کے  بعد مرحوم کی کل جائیداد کے ۷۲ حصے کئے جائیں،جن میں سے ان کی اہلیہ کو  ۹ والدہ کو ۱۲ اور تینوں بیٹوں کو ۱۷،۱۷ حصے  دئے جائیں۔

رہا دادا کا مسئلہ تو اگر ان کی میراث تقسیم کرنی ہے توان کی وفات کے وقت جو وارثین  موجود تھے ان کی تفصیل لکھ کر مسئلہ معلوم کرلیں۔

 کما قال اللہ تعالیٰ فی القرآن المجید: يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ  الی قولہ  فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ(النساء:۱۱و۱۲)

وکما فی السراجی اما لزوجات فحالتان… والثمن  مع الولد او ولد الابن وان سفل۔(السراجی فی المیراث:۱۸ و۱۹)

 واللہ اعلم بالصواب